سنا ہے اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں !
مگر کونسے آنسو ؟
وہ جو خوف خدا میں انکھ سے نکلے ہوں
یا ندامت ، پچھتاوے اور مایوسی کے…
مگر میرے آنسو تو شکوؤں اور محرومیوں سے لبریز ہیں . نیند کانتظار کرتے کرتے کب اسکے آنسو بہنے لگے اسے احساس ہی نہ ہوا تھا . آنسو پونچھتے ہوئے جو پہلی بات اس ذہن میں ابھری وہ یہی تھی جو اسے مزید رونے پر اکسارہی تھی . زندگی کی محرومیاں اور اپنوں کے دیے زخم سب ایک کچھ بار پھر یاد آ رہا تھا . اسے شکوے تھے دنیا سے ، لوگوں سے ، الله سے اور شاید خود سے بھی .
الله سے شکوہ ہمیشہ ہی اسکی زبان پر رہا شاید اسی لئے کبھی مانی بھی نہیں تھی الله کی، اور نہ کبھی شکر ادا کیا تھا کہ شکر ادا کرنے کے لئے نعمتوں کو محسوس کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس نے کبھی اپنے ارد گرد پھیلی نعمتوں کو اس قابل سمجھا ہی نہیں تھا سسکیاں ہچکیوں میں بدلنے لگی تھیں آج وہ ٹوٹ رہی تھی .
الله سے جو خود ساختہ جنگ تھی وہ ہار رہی تھی .
آج الله سے بات کرنی تھی اسے الله سے الله کو مانگنا تھا
مگر اچانک احساس ندامت نے اسکے وجود کو جکڑ لیا تھا کہ ساری عمر جس کی مانی نہیں ، اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر تک ادا کیا نہیں تو اب کیسے اسے اسی سے مانگوں . عجیب کشمکش تھی ، بےبسی کی انتہا تھی ، اسے لگا اگر اب بھی نہ بات کی تو اسکا دم گھٹ جائے گا . ٹوٹے پھوٹے لفظ ، بے ربط جملے کہاں سے شروع کرے ؟
تانے بنتے ہلکان ہو گئی مایوسی اپنی لپیٹ میں لینے کو تھی کہ مسجد سے بلند ہوتی صدا نے اسے امید کی کرن دکھا دی . اسے محسوس ہوا کہ یہ صدا آج خاص اس کے لئے ہے . سارے شکوے ، حسرتیں محرومیاں سب بے معنی ہو گئے تھے .
سر خودبخود سجدہ میں چلا گیا جہاں اسے آنسو بہانے ۔کے لئے کسی وجہ کی ضرورت نہیں تھی ہاں مگر سکون کی …….
Wah wah
Thank you
Good post. I learn something totally new and challenging on blogs I stumbleupon everyday. Its always useful to read through content from other authors and practice something from other sites.