شہرِخموشاں
شہرِخموشاں سے کبھی گزروں تو
بظاہر کچھ پل کو ٹھہر جاتی ہوں
بیتے ہوۓ لمحوں اور
بچھڑے ہوۓ اپنوں کی یاد
پلکوں کو بھگوتی ہے مگر پھر
میں
چلتے چلتے آہستہ سے
دل ہی دل میں
اپنے بچھڑے ہوؤں کے لئے
شہرِخموشاں کے مکینوں کے لئے
زیرِلب کچھ نہ کچھ پڑھتی ہوں
کوئی دعا ،کوئی درود
کوئی اسِم ، کوئی ورد
کہ ان کی یہی چاہت ہے
اسی میں ان کی راحت ہے
ان خاموش لوگوں سے
میں ایسے بات کرتی ہوں
یا شائد اپنے لئے کوئی
میں راہ ہموار کرتی ہوں
کہ کل جب میں یہاں ہوں
انہی کے درمیاں موجود
کوئی بھولے سے گزرے تو
بھلے ایک پل کو ٹھہرے تو
چشم نم نہ ہو لیکن
لبوں پر ورد ہو کوئی!!!!!
کچھ اپنوں کی یاد ہمیشہ ساتھ رہتی ہے. بھلے آپ اسکا برملا اظہار کریں یا نہ کریں.
یہ اس شہر کی بات ہو رہی ہے جہاں ہم میں سے ہر کسی کا کوئی نہ کوئی ضرور جا بسا ہے .
یاد تو کرتے ہی ہیں دعا بھی کر دیا کریں.