تھک ہار کے دن بھر جان مار کے
باپ گھر کو لوٹا خون ساڑ کے
دل تھا رودے دھاڑیں مار کے
سوچ رہا تھا کیا وہ کہہ دے
جس کو سن کے بہلیں بچے
بھوک پیاس کو بھولیں بچے
خالی جیب اور دل کو لے کے
کھولا دروازہ ہمت کر کے
چہکے بچے بابا آ گئے بابا آ گئے
سر کو ہلایا بس مسکرا کے
بیٹھیں بابا تھک گئے ہوں گے
پانی پیجئے منہ ہاتھ دھو کے
بچے بیٹھے صابر ہو کے
باپ کے پاس گھیرا ڈال کے
کیسے نکلوں اس مشکل سے
فریاد کی دل ہی دل میں رب سے
باپ کا چہرہ پڑھ کر بچے
سمجھ کے سارا قصہ بچے
بابا ہم کو کہانی سنا دو
نیندآئی ہے لوری سنا دو