کچھ تو دیر لگتی ہے
آندھیوں کے تھمنے میں،دھندلکوں کے چھٹنے میں
منظر کے نکھرنے میں، کچھ تو دیر لگتی ہے
اصلیت کے کھُلنے میں، خوشنما سی دنیا کی
اس کو پھر سمجھنے میں ، کچھ تو دیر لگتی ہے
دوغلے رویوں میں، بے اعتبار لوگوں کے
اصل نقش ابھرنے میں، کچھ تو دیر لگتی
نیتیں سمجھنے میں، اور ان کو سہنے میں
سادہ دل کے لوگوں کو، کچھ تو دیر لگتی ہے
روح پر پڑی ضربیں ، کب کسی نے دیکھی ہیں
شل بازوں سے مرہم میں، کچھ تو دیر لگتی ہے
خوش گمانی کے سمندرمیں، حقیقت کے لاشے کو
.کھینچنے میں ساحل تک ، کچھ تو دیر لگتی ہے