بات کیجئے ،ڈیپریشن کو مات دیجیئے
ہم کیوں نہیں بات کرتے؟
ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہمارا بات کرنا کسی کے لئے کوئی معانی نہیں رکھتا ؟
کیوں ہم خود سے ہی اندازے لگا کر خود ساختہ خول میں بند ہوتے جا رہے ہیں؟
ہم کیوں اپنے دل میں پیدا ہونے والے خدشات کو اتنا حاوی کر لیتے ہیں کہ پھر ان خیالات کی دلدل سے نکلنا ممکن ہی نہیں رہتا ؟
سب کچھ اندر ہی اندر سہنے سے جانتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے ، ڈپریشن ، جی ہاں آپ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
ڈپریشن ایک ایسی دنیا ، بلکہ میں تو اسے دلدل ہی کہوں گی۔
ایسی دلدل جہاں سے آپ کسی دوسرے کی مدد کے بغیر باہر نہیں آ سکتے ۔
یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ڈپریشن کو دعوت بھی تو ہم خود ہی دیتے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد لوگوں سے اپنے مسائل کے بارے میں بات نہیں کرتے یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔
یا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل کو نہیں سمجھ سکیں گے ، ارررے آپ بات تو کر کے دیکھیں اور کچھ نہیں تو وہ آپ کو دو بول تسلی کے اور حوصلہ کے ہی بول دیں گے۔
لیکن ہماری آجکل کی نسل کو لگتا ہے کہ کوئی ان کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا اسی لیے وہ کسی سے اس بارے میں بات نہیں کرتے اور آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار ہو کر اتنے بےبس ہو جاتے ہیں کہ ان کو راہ فرار جو نظر آتی ہے وہ ہے “خود کُشی”۔ جی جی بلکل درست پڑھا آپ نے ۔ میں نے خودکشی ہی لکھا ہے ۔ ایک لمحہ کے لئے زرا سوچئے کیا اتنا آسان ہوتا ہے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا؟؟ میری تو سوچ کر ہی روح کانپ اُٹھی ہے ۔
سوچئے کہ ایسے لوگوں کی دماغی حالت کس نہج پر پہنچ چکی ہوتی ہے کہ انہیں اس سے بہتر اور آسان راستہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔
ہمارے معاشرے میں خودکشی کا رجحان روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ اخبارات بھرے پڑے ہیں ایسے واقعات سے۔
بہت سے عوامل کار فرما ہیں اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے میں ، جیسے کہ
امتحانات میں ناکامی
(مستقبل کے حوالے سے مایوسی )نوکری کا نہ ملنا
معاشی لحاظ سے تنگی اور پریشانی
(محبت میں ناکامی یا بیوفائی )پتہ نہیں آجکل کی نسل کو ہو کیا گیا ہے
اور سب سے بڑی وجہ جو مجھے لگتی ہے اور بہت زیادہ سماجی رابطے کے مواقعوں کا موجود ہونا
میں قطعی یہ نہیں کہہ رہی کہ سماجی رابطے نہیں ہونے چاہیے۔ ہونے چاہیئے مگر ایک حد تک ۔۔
جب ہم اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز صرف اس لئے سماجی رابطے کی سائیٹس پر ڈالیں گے کہ اس سے لوگ متاثر ہوں گے اور ہماری واہ واہ کریں گے ۔ اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم اس بات کو برداشت نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر اس بات پر گھلنے لگتے ہیں ۔
اسی طرح کسی دوسرے کی کامیابی کو دیکھ کر اس سے حسد کرنا ، دوسرے کی خوشی میں خوش نہ ہونا ، ہر بات پر احساس کمتری کا شکار ہونا ۔ یہ سب چیزیں بھی ڈپریشن کا شکار بنا دیتی ہیں ۔
اللہ کی کی گئ تقسیم پر شاکر ہونا سیکھئیے ، اور جو ہے اسی میں خوش رہیں ۔
اپنی طرف سے پوری کوشش کریں اور اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں ، پھر جو بھی نتائج ہوں ان کو کھلے دل سے قبول کریں کیونکہ آپ نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ۔
ڈپریشن کوئی اسی بات نہیں ہے جس کو چھپایا جاۓ بلکہ اس کے بارے میں بات کریں ، اگر آپ کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ، کوئی بات مسلسل پریشان کر رہی ہے تو کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں اور بات کریں جو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی بات سنے گا اور جتنا ممکن ہو گا اس کو سمجھے گا بھی ۔
Best👌👌
Best nd factual thoughts