مجھ سے کہتے ہیں زمانے کا چلن دیکھو
خود کو بدلو ‘ کچھ تو سمجھو اتنی کیا انا ہے
ان کا شکوہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
پھر میرا لہجہ بھی بدلتا چلا جاتا ہے
خود کو بدلوں ‘ کیسے کیوں اور کب تک
جو بھی آتا ہے پل بھر ٹھہرتا ہے چلا جاتا ہے
مرنے والے کو روئیں کیسے بھلا دیر تلک
اک جاتا ہے تو پیچھے اک اور چلا جاتا ہے
شان و شوکت لمحوں میں بدلتی ہے ایسے
روح نکلتے ہی جسم مٹی میں چلا جاتا ہے