اذیت
چھو آئی ہوں
اذیت کی اس حد کو
جو شاید آخری ہو
درد کے احساس کو مٹتے ہوئے
سانس کو تھمتے ہوئے
اندھیری کھائی میں گرتے ہو ئے
یاد کے دریچوں سے
حسین لمحے کو جھروکوں سے
تلخ حقیقت کے آشکار ہونے تک
میں نے جاناں کہ
اذیت وہ نہیں جسے میں نے جھیلا
اذیت تو ہے
جان سے پیارے اپنوں کو
اپنے درد میں تڑپتے
لبوں پہ التجا کو مچلتے
اشکوں میں امید کے دیپ جلتے
آنکھوں میں کھو دینے کے خوف کو
ہر ڈوبتی سنبھلتی نبض کے ساتھ
چہرے پہ پھیلتی بیقراری کو
اور
ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو
دیکھنا اذیت ہے
بے حد اذیت ہے
ایسی اذیت کہ جس کی کوئی حد نہیں