سرگوشی موت کی ہر لمحہ تعاقب میں رہی زندگی تجھے جینے کی حسرت ہی رہی ہر دن اک خواہش سے دستبردار ہوئی اور ہر رات کئی خواب آنکھوں سے مسلتی رہی
Category: Poetry
دھند کی چادر نے چھپایا ہے جِسے اب اُسی راستے پر چلنا ہے مجھے یہاں سورج سے گِلہ کون کرے فقط چاند کی طرح جلنا ہے مجھے
کانچ نگر میں رہنے والے پتھر دل کے مالک لوگ سوچ میں اپنی اعلی عرفہ کیسے کیسے زیرک لوگ کھوجیں تیرے میرے عیب اپنا آپ نہ دیکھیں لوگ بیساکھی سے چلنے والے کھینچیں اندھے کی لاٹھی لوگ حق ماریں سینہ تان کے اوروں کو کچھ نہ سمجھیں لوگ خوف انہیں نہ فکر ہی کوئی دیں
آنکھیں کیونکر برسیں آنکھیں کیونکر برسیں جب ہو دل ہی بنجر نگر نگر کیا ڈھونڈ رہا ہے صحرا , جھیل , زمیں , سمندر آس کی ڈوری تھامے گھومے مسجد , مکتب , گرجا , مندر یہاں وہاں کیا کھوج رہا ہے کبھی تو جھانک اپنے اندر خالق سے تو ملنا چاہے رکھ پیار خلق
خوشی بھرپور ہمیں کب راس آئی خوشی بھرپور ہمیں کب راس آئی ساتھ کسی غم کی سوغات لائی جب چاہوں کہ کھل کے ہنسوں اب جانے کیوں آنکھ میں برسات اتر آئی اب کہ سوچا یہ معمہ بھی حل ہو لاکھ چھپاؤں خود سے بھی تجھ کو دیکھ کر یہ تقدیر دور کھڑی مسکائی یوں
کہا میں نے کہو کچھ تو کہا میں نے کہو کچھ تو کیوں مجھ سے بات کرتے ہو یوں وقت برباد کرتے ہو میں اک عام سی لڑکی کیوں میری راہ تکتے ہو کہا اس نے کہوں میں کیا کہنے سے کر لو گی یقین کیا کہ سبھی باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں سنو
اذیت چھو آئی ہوں اذیت کی اس حد کو جو شاید آخری ہو درد کے احساس کو مٹتے ہوئے سانس کو تھمتے ہوئے اندھیری کھائی میں گرتے ہو ئے یاد کے دریچوں سے حسین لمحے کو جھروکوں سے تلخ حقیقت کے آشکار ہونے تک میں نے جاناں کہ اذیت وہ نہیں جسے میں نے جھیلا