میری ذات ذرہء بے نشاں
کھڑکی پر پڑنے والی بارش کی بوندوں نے پلکوں پر عرصہ دراز سے مقیم آنسوؤں کو راہ فرار دکھا دی، تو وہ ایک دم ہی ہنس پڑی۔ اوہ آج تم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ،چلو اچھا ہے کب تک رہ سکتے تھے میرے ساتھ ۔۔۔
بھلا ہم ایسوں کے ساتھ کوئی کب تک رہ سکتا ہے!!!!!
وہ ایسی نہیں تھی جیسا سب اُسے سمجھتے تھے یا شاید اُسے کوئی سمجھا ہی نہیں تھا۔۔
ہاں تو کیوں سمجھے گا مجھے کوئی ؟؟؟
کِس کے پاس اتنا وقت ہے جو مجھ ایسوں کو سمجھے!!
ارے میں بھی نا بس کیا کیا سوچ رہی ہوں ۔۔۔۔
سب کہتے ہیں نا کہ اِسے تو اللہ ہی سمجھے ۔۔۔ پر اگر اللہ نے ہی مجھے سمجھنا تھا تو ۔۔۔مجھے اس دنیا میں بھیجا ہی کیوں!!!
اللہ جی آپ تو مجھے وہیں سمجھ سکتے تھے نا!!!!!
آپ ہی تو ہیں جو مجھےسمجھتے ہیں ۔۔ بتائیں نا ۔۔۔۔ سمجھتے ہیں نا ؟۔
دل کا غبار جو روح کا درد بنتا جا رہا تھا اب آنکھوں کے راستے گالوں پر بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ کمزور نہیں تھی شاید سہتے سہتے تھکنے لگی تھی (کوئی کتنا بھی
مضبوط بنے رویے کبھی نہ کبھی ‘ کہیں نہ کہیں تھکانے لگتے ہیں)۔
کیسا لگتا ہے جب اپنی ذات کے بارے میں یہ سننے کو ملِے کہ یہ زندگی میں کبھی کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔
” ارے بھئ ایک کام کو دس دس بار کہنے کے بعد اگر ہو بھی گیا تو سمجھو غنیمت ہے”۔۔۔۔
” لو بھلا اب کون ان کے ساتھ اتنا سر کھپاۓ۔۔۔۔
اس سے اچھا تو انسان خود کر لے۔ “
وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتی تھی اور نا ہی کام سے دل چرانے والی تھی لیکن اُس کا دماغ چیزوں کو سمجھنے میں عام لوگوں گی نسبت تھوڑا زیادہ وقت لگاتا تھا۔۔ بھلے کتنی ہی آسان بات ہو اس کو سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کا دورانیہ اکثر طویل ہو جاتا ۔۔۔جب تک وہ چیزوں کو سمجھ کر ان افعال پر کام کرنا شروع کرتی تب تک اکثر دیر ہو جاتی اور نتیجتاً اسے ایسی باتیں سننے کو ملتیں کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا بھی چاہتی تو لفظ اس کی زبان سے ادا نا ہو پاتے ۔۔۔۔۔ اٹک اٹک کر بات مکمل کرنا چاہتی بھی تو کس کے پاس اتنا وقت تھا جو اس کی سنتا۔
وقت ہی تو نہیں تھا کِسی کے پاس کہ تھوڑی سی محنت’محبت اور توجہ کا احساس اُسے پُراعتماد بنانے میں مددگار رہتا۔۔ اس بات کو یقینی بناتے کہ جتنا وقت چاہیے لو ، اور جو بھی کام کرو پورے اعتماد سے کرو ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔
ہمیں تم پر بھروسہ ہے۔۔
تم کر سکتی ہو۔۔۔
تم خاص ہو۔۔۔
یہ سب وہ صرف سوچ سکتی تھی کیونکہ اپنی بات کہنا اس کے لئے اتنا آسان نہ تھا جتنا کہ کسی عام انسان کے لئے ہو سکتا تھا۔
احساس کو الفاظ کی شکل دے کر جملوں کو درست ترتیب سے ہونٹوں سے ادا کرنا اس کے لیے کبھی بھی آسان نہیں رہا تھا ۔۔۔
اس سب میں وقت درکار تھا
ہاۓ وقت ہی تو نہیں تھا کسی کے پاس۔۔۔۔
کھڑکی پر بارش کی بوندیں اب بھی پھسل رہی تھیں۔۔ ہر گرتی ہوئی بوند اسکے دل کو اور بوجھل کرتی جا رہی تھی